studyliterary.com

Fakhta Ki Aawaz – Nasir Kazmi Tashreeh

فاختہ کی آواز

Nasir Kazmi

آج تو فاختہ کی نرم آواز
ہے کچھ اس طرح غرق سوز و گداز
جیسے پیری میں یاد طفلی آئے
جیسے جل جل کے شمع بجھ بجھ جائے
جیسے یعقوب غرق شیون میں
جیسے سیتا کی جستجو بن میں
شب کو جس طرح دل میں درد اُٹھے
بیوگی تو عروس کی جیسے
شام کو زیر سایہ کو ہسار
جیسے وادی میں دھیمی دھیمی پھوار
جیسے جو بر نہ آئی ہو وہ مراد
جیسے بچھڑے ہوؤں کی دل میں یاد
جیسے اشکوں کی لہر سینے میں
پانی آنے لگے سفینے میں
جیسے سرال میں کوئی
لڑکی دیکھ کر بدلیوں کو ساون کی
صبح پنگھٹ کی نیم کے نیچے
مائیکے کی گھٹائیں یاد کرے

یہ نظم فاختہ کی آواز کے ذریعے مختلف گہرے انسانی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعر نے فاختہ کی نرم اور غمگین آواز کو زندگی کے مختلف درد ناک اور جذباتی لمحات سے تشبیہ دی ہے۔  آئیے نظم کے ہر مصرعے کی تفصیل سے تشریح کرتے ہیں 

 آج تو فاختہ کی نرم آواز
ہے کچھ اس طرح غرق سوز و گداز

شاعر کہتا ہے کہ آج فاختہ کی آواز میں ایک خاص قسم کا سوز و گداز ہے، جیسے اس کے دل میں کوئی پرانا دکھ یا غم چھپا ہو۔ یہ آواز نرم ہے لیکن اس میں ایک گہری اداسی پوشیدہ ہے، جو دل کو چھو لیتی ہے۔

جیسے پیری میں یاد طفلی آئے
جیسے جل جل کے شمع بجھ بجھ جائے

یہاں شاعر فاختہ کی آواز کو اس کیفیت سے تشبیہ دیتا ہے جیسے بڑھاپے میں کسی کو بچپن کی یاد آئے۔ یہ یاد خوشی کی بجائے ایک طرح کا غم پیدا کرتی ہے، کیونکہ وہ وقت دوبارہ واپس نہیں آسکتا۔ اسی طرح، فاختہ کی آواز جلتی ہوئی شمع کی مانند ہے، جو دھیرے دھیرے بجھ رہی ہو، اور اس کے ساتھ ہی ایک دکھ بھری کیفیت پیدا ہو رہی ہو۔

جیسے یعقوب غرق شیون میں
جیسے سیتا کی جستجو بن میں

اس شعر میں شاعر دو مشہور شخصیات کے غم کو بیان کرتا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کا غم اس وقت بڑھ گیا جب انہوں نے اپنے بیٹے حضرت یوسفؑ کو کھو دیا، اور وہ روتے روتے اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ اسی طرح، فاختہ کی آواز اس غم کی عکاسی کرتی ہے۔ سیتا کی جستجو بھی ایک لمبی اور تکلیف دہ تلاش کی کہانی ہے، جب رام نے سیتا کو راون سے بچانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ شاعر کہتا ہے کہ فاختہ کی آواز اس درد و غم کو ظاہر کرتی ہے۔

شب کو جس طرح دل میں درد اُٹھے
بیوگی تو عروس کی جیسے

یہاں شاعر کہتا ہے کہ فاختہ کی آواز میں وہی درد ہے جو رات کے وقت دل میں اٹھتا ہے، جب ہر چیز خاموش ہوتی ہے اور تنہائی میں دل کے دکھ بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح، ایک بیوہ دلہن کا غم بھی بہت گہرا ہوتا ہے، جو اپنی شادی کی خوشیوں کے فوراً بعد بیوہ ہو جائے۔ فاختہ کی آواز اس غم کی نمائندگی کرتی ہے۔

شام کو زیر سایہ کوہسار
جیسے وادی میں دھیمی دھیمی پھوار

شاعر اس مصرعے میں فاختہ کی آواز کو شام کے وقت پہاڑوں کے دامن میں گرنے والی ہلکی ہلکی بارش سے تشبیہ دیتا ہے۔ اس وقت کی خاموشی اور اداسی کو فاختہ کی آواز میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

جیسے جو بر نہ آئی ہو وہ مراد
جیسے بچھڑے ہوؤں کی دل میں یاد

یہاں شاعر کہتا ہے کہ فاختہ کی آواز اس دکھ کی طرح ہے جو اس وقت محسوس ہوتا ہے جب کوئی خواہش پوری نہ ہو سکے۔ یہ آواز ان بچھڑے ہوؤں کی یاد کی طرح ہے جو دل میں بسے رہتے ہیں اور جن کی یادیں ہمیشہ دل کو رلاتی ہیں۔

 جیسے اشکوں کی لہر سینے میں
پانی آنے لگے سفینے میں

یہ مصرع دل کی گہرائیوں میں موجود دکھ کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ فاختہ کی آواز اس درد کی مانند ہے جو دل میں آنسوؤں کی لہر پیدا کرتا ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی کشتی سمندر میں ڈوبنے لگے اور اس میں پانی بھر جائے، یعنی دل کا بوجھ بڑھتا جائے۔

 جیسے سرال میں کوئی لڑکی
 دیکھ کر بدلیوں کو ساون کی
صبح پنگھٹ کی نیم کے نیچے
مائیکے کی گھٹائیں یاد کرے

آخری اشعار میں شاعر ایک نئی دلہن کی کیفیت بیان کرتا ہے جو اپنے سسرال میں بیٹھی ہوئی ہے اور ساون کی بارش کو دیکھ کر اپنے میکے (والدین کے گھر) کی یاد میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ صبح کے وقت پنگھٹ پر نیم کے درخت کے نیچے اپنے میکے کی گھٹاؤں کو یاد کرتی ہے۔ فاختہ کی آواز اسی درد اور اداسی کو بیان کرتی ہے۔

خلاصہ

اس نظم میں شاعر نے فاختہ کی نرم اور غمگین آواز کو مختلف انسانی جذبات سے تشبیہ دی ہے۔ فاختہ کی آواز میں وہی درد، اداسی اور گہرائی ہے جو انسان زندگی کے مختلف لمحات میں محسوس کرتا ہے۔ شاعر نے ان لمحات کو فاختہ کی آواز کے ذریعے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

یہ آواز کبھی بچپن کی یادوں کی طرح دل میں گہرائی پیدا کرتی ہے، کبھی جلتی ہوئی شمع کی مانند جو آہستہ آہستہ بجھ رہی ہو۔ یہ آواز حضرت یعقوبؑ کے غم، سیتا کی تلاش، یا رات کی تنہائی کے درد کو ظاہر کرتی ہے۔ شاعر نے فاختہ کی آواز کو ان تمام لمحات سے جوڑ کر اس کی گہرائی اور اثر کو بیان کیا ہے۔

نظم کے آخر میں شاعر ایک نئی دلہن کی کیفیت بیان کرتا ہے جو سسرال میں اپنے میکے کی یاد میں گم ہے۔ یہ تمام تشبیہیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ فاختہ کی آواز میں ایک گہری اور درد بھری کیفیت ہے جو مختلف انسانی جذبات کی نمائندگی کرتی ہے۔

یہ نظم دراصل انسانی زندگی کے ان لمحات کی عکاسی کرتی ہے جہاں دکھ، اداسی، اور یادیں ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہیں، اور فاختہ کی آواز ان سب جذبات کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Sorry! For security purpose, you can't copy

Scroll to Top